پلوامہ حملہ ،شاہد آفریدی نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کو دیئے گئے جواب کی حمایت کردی
- News Ent
- Feb 19, 2019
- 4 min read
Updated: Feb 20, 2019
وزیر اعظم نے بھارت کو بالکل درست جواب دیا:سابق کپتان

لاہور(19فروری 2019ء) قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے بھی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پلوامہ حملے پر بھارت کو دیئے گئے جواب کی حمایت کردی ۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹویٹر پر شاہد آفریدی نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھارت کو دیئے گئے جواب کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ”بالکل درست جواب “
یاد رہے کہ پلوامہ حملے پر بھارتی الزامات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چند دن قبل پلوامہ میں حملہ ہوا اور بھارت نے اس حملے کا پاکستان پر الزام عائد کیا، ہم سرمایہ کاری کانفرنس کی تیاریوں اور سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کی تیاریوں میں مصروف تھے اور اسی لیے تب میں نے اس معاملے پر بھارت کو جواب نہ دینے کا فیصلہ کیاکیونکہ اگر میں اس وقت جواب دیتا تو ساری توجہ کانفرنس اور دورے سے ہٹ کر اس معاملے پر چلی جانی تھی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سعودی ولی عہد پاکستان کا دورہ مکمل کر کے واپس گئے اور اب میں اس معاملے پر جواب دے رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ میں یہ جواب بھارتی حکومت کے لیے دے رہا ہوں۔ پہلے بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام بغیر ثبوت کے پاکستان پر عائد کر دیا۔اگر پاکستان اتنی اہم کانفرنس کر رہا تھا اور دورے کی تیاری کر رہا تھا ، اس وقت میں کوئی احمق بھی اس طرح کے واقعہ نہیں کرےگا کیونکہ اس سے ساری کانفرنس سبوتاژہو جانا تھی، اور تو اور بھلا اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہونا تھا ؟ اس وقت جب پاکستان استحکام کی طرف جا رہا ہے ، ہم نے پندرہ سال دہشتگردی کےخلاف جنگ کی جس میں 70 ہزار پاکستانی مارے گئے اس طرح کی کارروائیوں سے ہمیں کیا فائدہ ہونا تھا ؟ میں بھارتی حکومت سے سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ نے ماضی میں پھنسے رہنا ہے؟ اور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے ؟ آپکو چاہئیے کہ جس طرح افغانستان میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے جا رہے ہیں اسی طرح آپ بھی اس معاملے کی طرف کوئی ڈائیلاگ شروع کریں۔
میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ نیا پاکستان ہے جہاں نیا مائنڈ سیٹ اور نئی سوچ ہے، نہ کوئی باہر سے آ کر یہاں دہشتگردی کر سکتا ہے اور نہ یہاں سے جا کر کوئی باہر ہشتگردی کرےگا، میں بھارتی حکومت کو یہ پیشکش کر رہا ہوں کہ اگر آپ پلوامہ حملے میں کسی قسم کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں، یا کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کی تحقیقات بھی کروانا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔
اگر آپکے پاس انٹیلی جنس کی بنیاد پر کوئی معلومات ہے تو ہم سے شئیر کریں ہم اس پر ایکشن لیں گے۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی پاکستانی ملوث ہے تو وہ بھی پاکستان سے دشمنی کر رہا ہے ، اگر کوئی پاکستانی زمین استعمال کر رہا ہے تو وہ پاکستان سے دشمنی کر رہا ہے۔ ہم دہشتگرد ی پر بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ کیونکہ دہشتگردی پورے خطے کا مسئلہ ہے ، ہم اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کو بھی تیار ہیں کیونکہ ہم خطے سے دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ پاکستان نے دہشتگردی کےخلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا ہے، ہم نے ستر ہزار پاکستانیوں کو کھویا ہے۔
ہمارا دہشتگردی کےخلاف جنگ میں سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں بھارتی حکومت کو دو چیزیں کہنا چاہتا ہوں۔ اب بھارت میں بھی ایک نئی سوچ آنی چاہئیے ، بھارت کو سوچنا چاہئیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیری نوجوان اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ انکے دل سے موت کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فوج کے ذریعے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
اتنے سال گزر جانے کے باوجود بھی فوج کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو اب کیسے ہو گا۔ اگر آج تک آپ لوگ فوج کے ذریعے کامیاب نہیں ہوئے تو کیا آگے کامیاب ہو جائیں گے۔ افغانستان کے معاملے پر بھی اب ساری دنیا نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے ، اگر افغانستان میں بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو کیا بھارت میں اس پر بات نہیں ہونی چاہئیے ؟ دوسری چیز ہم میڈیا پر سن رہے ہیں کہ بھارتی سیاستدان ، ٹی وی چینلز اور ٹی وی اینکرز یہ کہہ رہے ہیں کہ اب پاکستان کو سبق سکھانا چاہئیے ،ہمیں احتجاج کرنا چاہئیے ، ہمیں پاکستان سے بدلہ لینا چاہئیے۔
میں یہ پوچھتا ہوں کہ دنیا کا کون سا قانون ہے جو کسی بھی ایک شخص یا ملک کو جج بننے کی اجازت دیتا ہے۔ بھارت میں یہ الیکشن کا سال ہے، الیکشن میں ہو سکتا ہے کہ پاکستان کےخلاف بات کرنے سے اور جنگ کی بات کرنے سے فائدہ ہو اور اسی لیے کہا جا رہا ہو کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے لیکن اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ پاکستان سوچے گا نہیں، بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں پاکستان زبردست جواب دےگا۔
اسکے بعد بات کدھر جائےگی وہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ جنگ شروع کرنا آسان ہے، جنگ شروع کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے لیکن جنگ ختم کرنا انسان کے ہاتھ میں نہیں ہو گا۔ اسی لیے میں امید رکھتا ہوں کہ امن کے قیام کے لیے عقل استعمال کی جائےگی اور اس مسئلے کو بھی بات چیت سے حل کر لیا جائےگا۔
Comments